مہر خبررساں ایجنسی ، دینی ڈیسک: فضائل امام علیؑ ان آیات، احادیث، خصوصیات اور تاریخی واقعات کو کہا جاتا ہے جن میں شیعوں کے پہلے امام حضرت علیؑ کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ امام علیؑ کے فضائل قابل شمار نہیں ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہونے والی ایک حدیث کے مطابق حضرت علیؑ کے فضائل کو نقل کرنا، لکھنا، دیکھنا اور سنّا گناہوں کی بخشش کا سبب ہے۔
امام علیؑ کے فضائل کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ایک قسم ان فضائل کی ہیں جو صرف آپ سے مختص ہیں جبکہ دوسری قسم ان فضائل کی ہیں جن میں آپ کے ساتھ دوسرے ائمہ اور اہل بیتؑ بھی شامل ہیں: آیہ ولایت، آیہ شِراء، آیہ انفاق، حدیث غدیر، حدیث طیر، حدیث منزلت، مولود کعبہ اور خاتم بخشی آپ کے اختصاصی فضائل میں سے ہیں۔ جبکہ آیہ تطہیر، آیہ اہلالذکر، آیہ مَوَدّت اور حدیث ثقلین وغیرہ میں آپ کے ساتھ اہل بیتؑ کے دیگر افراد بھی شامل ہیں۔
بنی امیہ کے دور میں آپ کے فضائل کو نشر کرنے پر پابندی لگائی گئی۔ اس دور میں آپ کے فضائل کو نقل کرنے والوں کو یا مار دیا جاتا تھا یا انہیں قیدی بنایا جاتا تھا۔ اسی طرح معاویہ کے حکم سے امام علیؑ کے فضائل کے مقابلے میں خلفائے ثلاثہ کے لئے فضیلت جعل کرنے والوں کی تشویق کی جاتی تھی۔ بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ اسی وجہ سے اہل سنت منابع میں امام علیؑ کے فضائل بہت کم نقل ہوئے ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود شیعہ اور اہل سنت جوامع حدیث میں حضرت علیؑ کے بہت سارے فضائل نقل ہوئے ہیں۔ اسی طرح دونوں مذاہب فکر کے علماء نے اس سلسلے میں مستقل طور پر کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔ فضائل امیرالمؤمنین ابن حنبل، خصائص امیر المؤمنین نسائی اور عُمْدَۃُ عُیونِ صِحاحِ الأخْبار فی مَناقبِ إمامِ الأبرار ابن بطریق من جملہ ان کتابوں میں سے ہیں۔
اہمیت اور اقسام
فضائل امام علیؑ ان آیات، احادیث، خصوصیات اور تاریخی واقعات کو کہا جاتا ہے جن میں شیعوں کے پہلے امام حضرت علیؑ کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ فضائل ان صفات اور خصوصیات کو کہا جاتا ہے جن کے ذریعے کوئی شخص یا گروہ دوسروں سے متمایز ہوتے ہیں۔[1] شیعہ کلامی کتابوں میں امام علیؑ کے فضائل سے آپ کی امامت اور خلافت کے لئے دوسروں پر آپ کی فوقیت کو ثابت کرتے ہیں۔[2] پیغمبر اسلامؐ سے منقول ہے کہ کہ حضرت علیؑ کے فضائل کثرت کی وجہ سے قابل شمار نہیں ہیں۔[3] اسی طرح احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں کہ جتنے فضائل علی بن ابیطالب کے لئے نقل ہوئے ہیں وہ کسی بھی صحابی کے لئے نقل نہیں ہوئے ہیں۔[4]
فضائل امام علیؑ دو طرح کے ہیں:
اختصاصی فضائل: یعنی وہ فضائل جو صرف سے مختص ہیں مثلا لیلۃ المبیت کو پیغمبر اکرمؐ کے بستر پر سونا جو آیت شراء کے نزول کا سبب بنا۔
مشترک فضائل: وہ فضائل جن میں آپ کے علاوہ پنج تن یا دوسرے معصومین بھی شامل ہیں؛ جیسے حدیث ثقلین جو آپ کے علاوہ اہل بیتؑ کے دوسرے افراد کو بھی شامل کرتی ہے اسی طرح حدیث کسا جس میں آپ کے علاوہ پنج تن کے دوسرے افراد بھی شامل ہیں۔
ابن شاذان قمی نے پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق جو شخص امام علیؑ کے فضائل میں سے کسی ایک کو بیان کرے اور اس پر اعتقاد بھی رکھے تو خدا اس کے گذشتہ اور آئندہ کے گناہ معاف کر دے گا اور اگر کوئی شخص آپ کے فضائل میں سے کسی فضلیت کو تحریر کرے تو جب تک وہ تحریر باقی ہے ملائکہ اس شخص کے لئے استغفار کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص آپ کی کسی فضلیت کو سنے تو اس کے کانوں کے ذریعے انجام پانے والے گناہ معاف کئے جائیں گے اور اگر کوئی شخص آپ کی کسی فضلت کی طرف دیکھے تو اس کی آنکھوں کے ذریعے انجام پانے والے گناہ معاف کئے جائیں گے۔[5]
قرآن میں ذکر ہونے والے فضائل
قرآن میں ذکر ہونے والے فضائل سے مراد قرآن کے وہ آیات ہیں جو امام علیؑ کی شأن میں نازل ہوئی ہیں یا آپؑ کو ان کا مصداق قرار دیا جاتا ہے۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ قرآن کی آیات جتنے حضرت علیؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کسی اور کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ہیں۔[6] اسی طرح ابنعباس رسول خداؐ سے نقل کرتے ہیں کہ خدا نے کسی آیت کو نازل نہیں کیا جو "یا أیها الذین آمنوا" کے ذریعے شروع ہوتی ہے، مگر یہ کہ حضرت علیؑ ان میں مؤمنوں کے امیر کی حیثیت سے ان میں سر فہرست ہیں۔[7] ابن عباس 300 سے بھی زائد آیات کو حضرت علیؑ کی شأن میں نازل ہونے کے قائل ہیں۔[8] قرآن میں ذکر ہونے والے حضرت علیؑ کے بعض فضائل یہ ہیں:
آیہ ولایت: سورہ مائدہ کی آیت نمبر 55 جس میں خدا، پیغمبر اسلامؐ اور نماز اور زکات قائل کرنے والے کی ولایت کو تمام مسلمانوں پر واجب قرار دیتے ہیں۔[9] شیعہ اور اہل سنت مفسرین اس آیت کی شأن نزول کو حضرت علیؑ کی جانب سے خاتم بخشی کا واقعہ قرار دیتے ہیں جس میں آپ نے رکوع کی حالت میں فقیر کے لئے اپنی انگوٹھی بخش دی تھی۔[10]
آیہ شراء: سورہ بقرہ کی آیت نمبر 207 میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہیں جو خدا کی رضایت کی خاطر اپنی جانوں کو قربان کرتے ہیں۔[11] ابن ابی الحدید کے مطابق تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے۔[12] علامہ طباطبایی لکھتے ہیں: احادیث کے مطابق یہ آیت لیلۃ المَبیت کے واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[13] اس واقعے میں مشرکین مکہ نے رات کے وقت پیغمبر اسلامؐ کے گھر پر حملہ کرکے آپؐ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس رات امام علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کے بستر پر سو کر آپ کی جن بچائی۔[14]
آیہ تبلیغ: سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67 میں خدا نے پیغبر اسلامؐ کو اس بات پر مأمور فرمایا تھا کہ جو پیغام خدا نے آپ تک پهنچایا ہے اسے لوگوں تک پہنچایا جائے اور اگر آپ اس پیام کو لوگوں تک پہنچانے میں کوتاہی کریں تو گویا آپ نے اپنی رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا ہے۔[15] شیعہ اور اہل سنت مفسرین کے مطابق آیہ تبلیغ حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر پیغمبراکرمؐ پر نازل ہوئی۔[16] احادیث میں اس آیت کی شأن نزول کو واقعہ غدیر میں حضرت علیؑ کی جانشینی کا اعلان قرار دیا گیا ہے۔[17]
آیہ اِکمال : سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3 میں دین اسلام کی تکمیل کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔[18] شیعہ مفسر آیت اللہ مکارم کے مطابق شیعہ تفاسیر میں دین اسلام کی تکمیل سے مرادا امام علیؑ کی خلافت اور امامت کا اعلان ہے اور احادیث بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں۔[19] شیعہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیہ اکمال واقعہ غدیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[20]
آیہ صادقین: سورہ توبہ کی آیت نمبر 119 میں مؤمنین کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ صادقین کے ساتھ رہیں اور ان کی پیروی کریں۔[21] شیعہ احادیث میں صادقین سے مراد اہل بیتؑ لیا جاتا ہے۔[22] محقق طوسی اس آیت کو حضرت علیؑ کی امامت کے دلایل میں سے قرار دیتے ہیں۔[23]
آیہ خیر البریہ: سورہ بینہ کی آیت نمبر 7 میں ایمان لانے اور عمل صالح انجام دینے والوں کو لوگوں میں سے سے بہتر قرار دیتے ہیں۔[24] شیعہ اور اہل سنت احادیث کے مطابق یہ گروہ امام علیؑ اور آپ کے شیعہ ہیں۔[25]
آیہ صالح المؤمنین: سورہ تحریم کی آیت نمبر 4 خدا نے حضرت علیؑ، جبرئیل اور دیگر فرشتوں کو پیغمبر اسلامؐ کا حامی قرار دیتے ہیں۔ تفاسیر فریقین سے نقل ہونے والی ایک حدیث[26] کے مطابق صالحالمومنین کا واحد مصداق امام علیؑ ہیں۔[27]
آیہ انفاق: سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274 میں دن رات، مخفی اور آشکار انفاق کرنے والوں کا ثواب اپنے پروردگار کے یہاں محفوط قرار دیتے ہیں۔[28] مفسرین کے مطابق یہ آیت حضرت علىؑ کی شأن میں نازل ہوئی کیونکہ آپ کے پاس 4 درہم تھے جس میں سے ایک کو آپ نے رات کے وقت ایک کو دن کے وقت، ایک کو مخفی طور پر اور ایک کو اعلانیہ طور پر راہ خدا میں خرچ کر ڈالا۔[29]
آیہ نجوا: سورہ مجادلہ کی آیت نمبر 12 میں دولت مند مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب بھی پیغمبر اکرمؐ سے نجوا (مخفی گفتگو) کرنا چاہے تو اس سے پہلے صدقہ دیا کریں۔[30] طبرسی کے مطابق اکثر شیعہ اور اہل سنت مفسرین نے امام علیؑ کو واحد شخصیت قرار دیتے ہیں جس نے اس آیت پر عمل کیا ہے۔[31]
آیہ وُدّ : سورہ مریم کی آیت نمبر 96 میں خدا نے مؤمنین کی محبت دوسروں کے دلوں میں قرار دئے ہیں۔[32] احادیث کے مطابق پیعمبر اکرمؐ نے حضرت علیؐ سے فرمایا: اے علی یہ دعا مانگو کہ خدا تیری محبت مؤمنین کے دلوں میں قرار دیں۔ اسی سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی۔[33]
آیہ مباہلہ: سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 میں مباہلہ کے واقعے کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ دین کی حقانیت پر مباہلہ فرمایا۔ تفاسیر میں آیا ہے کہ امام علیؑ اس آیت میں نَفْس پیغمبرؐ کے عنوان سے پہچنوایا گیا۔[34]
آیہ تطہیر: سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 کے ایک حصے میں خدا نے اہل بیتؑ کو ہر قسم کی رجس اور نجاست سے پاک رکھنے کا اردہ فرمایا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیت اصحاب کساء کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[35]
آیہ اولی الامر: سورہ نساء کی آیت نمبر 59 میں مؤمنین کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ خدا، رسول خداؐ اور اولوالامر کے فرامین کی اطاعت کریں۔[36] شیعہ اور اہل سنت مفسرین کے مطابق مذکورہ آیت اولوالامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے۔[37] احادیث میں اولیالامر سے شیعہ ائمہ مراد لیا گیا ہے۔[38]
آیہ مودت: سورہ شوری کی آیت نمبر 23 جس میں "اَلْقُرْبیٰ" کی مودت اور محبت پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کے اجر کے عنوان سے مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔[39] ابن عباس سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے "القربی" سے حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ مراد لئے ہیں۔[40]
آیہ اطعام: سورہ انسان کی آیت نمبر 8 جس میں نیکوکار ان لوگوں کو قرار دیتے ہیں جو خود محتاج ہوتے ہوئے مسکین، یتیم اور اسیر کی مدد کرتے ہیں۔[41] احادیث کے مطابق یہ آیت امام علیؑ اور حضرت زہرا(س) کی بخشش کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[42] احادیث کے مطابق حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ(س) اور آپ لوگوں کی کنیز فضہ نے حسنینؑ کی شفایابی کے لئی تین دن روزہ رکھا اور تینوں دن افطاری کے وقت خود بھوکا ہونے کے باوجود اپنا کھانا مسکین، یتیم اور اسیر کے لئے بخش دئے۔[43]
آیہ اہلالذکر: سورہ نحل کی آیت نمبر 43 اور سورہ انبیاء کی آیت نمبر 7 میں اہل ذکر سے سوال کرنے پر تاکید کی گئی ہے۔[44] بعض احادیث کے مطابق اہل ذکر پیغمبر اکرمؐ کی اہل بیتؑ میں منحصر ہیں۔[45]
احادیث میں ذکر ہونے والے فضائل
پیغمبر اکرمؐ سے امام علیؑ کی مدح میں بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
حدیث غدیر: پیغمبر اسلامؐ کا غدیر خم کے مقام پر حضرت علیؑ کی جانشینی کا اعلان کرتے ہوئے دیا جانے والا خطبہ حدیث غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے[46] اور حضرت علی کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے سلسلے میں شیعوں کے اہم ترین دلائل میں شمار ہوتے ہیں۔
حدیث منزلت: اس حدیث میں پیغمبر اسلامؐ کی بنسبت امام علیؑ کے مقام و منزلت کو حضرت موسی کی بنسبت حضرت ہارون کے مقام و منزلت سے تشبیہ دی گئی ہے۔[47]
حدیث مدینۃ العلم : پیغمبر اسلامؐ سے نقل ہونے والی ایک حدیث ہے جس میں حضور اکرمؐ نے اپنے آپ کو علم کا شہر اور حضرت علیؑ کو علم کا دروازہ قرار دیئے ہیں۔[48] کتاب الغدیر میں اہل سنت کے 21 محدثین کا نام لیا گیا ہے جنہوں نے اس حدیث کو حسن یا صحیح قرار دیئے ہیں۔[49]
حدیث یومالدار: پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث ہے جس میں آپ نے اپنے رشتہ دراوں کو مہمانی پر دعوت فرمایا جس کی ضمن میں آپ نے حضرت کو اپنا وصی اور جانشین بنانے کا اعلان فرمایا۔[50] شیعہ متکلمین حضرت علیؑ کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے استناد ہیں۔[51]
حدیث وصایت: اس حدیث میں پیغمبر اسلام ؐ نے امام علیؑ کو اپنا وصی اور جانشین مقرر فرمایا ہے۔[52] شیعہ امام علیؑ کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے تمسک کرتے ہیں۔[53]
حدیث ولایت: اس حدیث میں پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو اپنے بعد مؤمنین کے ولی کے طور پر معرفی فرمایا ہے۔ یہ حدیث مختلف عبارتوں کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔[54] شیعہ لفظ "ولیّ" جو "عَلِیٌّ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِی"[55] میں آیا ہے کو امام اور سرپرست کے معنی میں لیتے ہیں اس طرح وہ حضرت علی کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے بھی تمسک کرتے ہیں۔[56]
حدیث طیر: حضرت علیؑ کی فضیلت میں نقل ہونے والی اس حدیث کے مطابق ایک دفعہ پیغمبر اکرمؐ نے پرندے کا گوشت کھانے کا ارادہ فرمایااور خدا سے درخواست کیا کہ اس کھانے میں آپ کو لوگوں میں سب سے افضل شخص کے ساتھ کھانا تناول فرمانے کی سعادت بخش دیں، اس موقع پر حضرت علیؑ تشریف لائے اور آپ کے ساتھ اس کھانے کو تناول فرمایا۔[57] یہ حدیث شیعہ اور اہلسنت منابع میں آیا ہے۔[58]
حدیث رایَت: یہ ایک مشہور حدیث ہے جسے حضرت محمدؐ نے غزوہ خیبر کے مقام پر ارشاد فرمایا: "کل میں پرچم ایک ایسے شخص کو دونگا جو درِ خیبر کو فتح کرے گا، وہ خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھے گا اور خدا اور اس کا رسول بھی اسے دوست رکھے گا۔[59]
حدیث ثقلین: قرآن و اہل بیت کی شأن میں حضرت رسول اکرمؐ سے منقول ہونے والی اس مشہور حدیث میں آیا ہے: "میں تم میں دو گرانبہا چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر ان دونوں سے متمسک رہو تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہونگے: اور یہ دو چیزیں خدا کی کتاب اور میری عترت ہے۔"[60] یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔[61]۔
حدیث کسا: پنج تن پاک کی فضیلت میں نقل ہونے والی یہ حدیث جو شیعہ[62] اور اہل سنت[63] میں آیا ہے، پیغمبر اسلامؐ نے اپنی خاندان کو ایک اونی چادر (کِساء) کے نیچے جمع فرما کر دعا فرمائی: "خدایا یہ لوگ میری اہل بیت ہیں۔ پلیدی اور نجاست کو ان سے دور رکھ۔"[64]
حدیث سفینہ: پیغمبر اسلامؐ سے نقل ہونے والی اس مشہور حدیث میں آپؐ نے اپنی اہل بیتؑ کو کشتی نوح کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا جو بھی اس میں سوار ہوگا نجات پائے گا اور جو ان کی مخالفت کرے گا ہلاک ہو گا۔[65] یہ حدیث بھی شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔[66]
حدیث شجرہ: پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: میں اور علی ایک درخت سے خلق ہوئے ہیں جبکہ باقی لوگ مختلف درختوں سے خلق ہوئی ہیں[67] بعض مفسرین پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ کا ایک منشأ سے پیدا ہونے کو اطاعت کرنے میں آپ دونوں کے مساوی ہونے پر دلیل قرار دئے ہیں۔[68]
حدیث لوح: یہ حدیث پیغمبر اسلام ؐ کی جانب سے بارہ اماموں کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے نقل ہونے والی احادیث میں سے ہیں جس میں آپؐ نے اپنے بارہ جانشینوں کا نام امام علی ؑ سے امام مہدیؑ تک کا ذکر فرمایا ہے۔[69]
حدیث حق: یہ حدیث پیغمبر اکرمؐ کی مشہور احاديث میں سے ایک ہے جس میں آپ نے حضرت علیؑ کو حق کا معیار قرار دئے ہیں۔ اس حدیث کی ایک تعبیر میں یوں آیا ہے: "على حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائے۔"[70]
حديث تشبيہ: اس حدیث میں پيغمبر اکرمؐ نے حضرت علىؑ کو اپنے اور دیگر انبیا کے ساتھ تشبيہ دی ہیں، یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔[71]
لا فَتَى إِلَّا عَلِی: اس حدیث کا معنا یہ ہے کہ جوانمردی میں علی ابن ابی طالب جیسا کوئی نہیں ہے۔ حدیثی اور تاریخی منابع کے مطابق اس حدیث کو جبرئیل نے جنگ اُحُد میں حضرت علیؑ کی فداکاری کے سلسلے میں بیان کیا ہے۔[72] یہ حدیث بھی شیعہ اور اہل سنت منابع میں موجود ہے۔[73]
حدیث قسیم النار و الجنۃ: پیغمبر اسلامؐ سے منقول اس حدیث کے مطابق حضرت علیؑ بہشت اور جہنم کا تقسیم کرنا والا ہے۔[74] یہ حدیث شیعہ[75] اور اہل سنت[76] منابع میں مختلف طریقوں اور مختلف راویوں سے نقل ہوئی ہے۔
پیغمبر اکرمؐ سے ان کے علاوہ بھی بہت ساری احادیث حضرت علیؑ کی فضیلت میں نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ ان میں "ضربة علی فی یوم الخندق افضل من عبادة الثقلین"؛[77] "جو شخص علیؑ کی شان میں گستاخی اور سب و شتم کرے اس نے گویا مجھ پیغمبر کو مورد لعن قرار دیا ہے"؛[78] "جس نے بھی علی کو اذیت پہنچائی گویا مجھے اذیت پہنچائی"؛[79] "علی کی دوستی مؤمن کو منافق سے جدا کرتی ہے"؛[80] "علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں"؛[81] "علی کا ذکر عبادت ہے"؛[82] "علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے"؛[83] حدیث خاصِف النَعل[84] اور حدیث مؤاخات شامل ہیں۔[85]
اسی طرح صِدِّیق اکبر[86] اور فاروق اعظم[87] جیسے القاب بھی حضرت علیؑ کے فضائل میں شمار ہوتے ہیں جو احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔
حضرت علیؑ کی خصوصیات اور آپ سے مربوط تاریخی واقعات
حضرت علیؑ کی بعض خصوصیات، امتیازات اور آپ سے مربوط بعض تاریخی واقعات درج ذیل ہیں: حضرت فاطمہ(س) سے شادی: حضرت علیؑ کی اختصاصی فضائل میں سے ایک پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی حضرت زہرا(س) کے ساتھ آپ کی شادی ہے جو خدا کے حکم سے انجام پائی ہے۔[88] کہا جاتا ہے کہ اگر حضرت علیؑ نہ ہوتے تو حضرت فاطمہؑ کے لئے کوئی ہم کفو نہیں ملتا۔[89] مولود کعبہ: مولود کعبہ، کعبہ میں حضرت علیؑ کی ولادت کی طرف اشارہ ہے یہ بھی حضرت علیؑ کے اختصاصی فضائل میں شمار ہوتے ہیں۔[90]
لقب امیرالمؤمنین: شیعوں کے مطابق یہ لقب صرف حضرت علیؑ کے ساتھ مختص ہے۔ شیعوں کے مطابق یہ لقب پہلی بار پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں حضرت علیؑ کے لئے استعمال کیا گیا ہے[91] شیعہ محدیث سید بن طاووس نے اپنی کتاب الیقین باختصاص مولانا علی بإمرۃ المؤمنین میں اہل سنت منابع سے 220 احادیث سے استناد کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ امیر المؤمنین کا لقب صرف حضرت علیؑ کے ساتھ متخص ہے۔[92]
سدّالاَبواب: یہ واقعہ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں پیش آیا جس میں حضور اکرمؐ نے خدا کے حکم سے حضرت علی کے دروازے کے علاوہ مسجد النبی میں کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کروا دیا۔[93]
پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اخوت و برادری: پیغمبر اکرمؐ نے مدینہ ہجرت سی پہلے اصحاب کے درمیان اور ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان عقد اخوت جاری فرمایا اور دونوں دفعہ حضرت علی کو اپنا بھائی بنایا۔[94]
پہلا مسلمان: شیعہ اور بعض اہل سنت دانشوروں کے مطابق مردوں میں حضرت علیؑ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لے آئے۔[95]
ابلاغ آیات برائت: تفسیر نمونہ کے مطابق تقریباً تمام مفسرین اور مورخین کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ جب سورہ توبہ (یا اس کی ابتدائی آیات) نازل ہوئی اور مشرکین کے ساتھ منعقدہ عہد پیمان کو ختم کر دیا، اس موقع پر پیغمبرؐ نے شروع میں اس حکم کو پہنچانے کی ذمہ درای ابوبکر کے ذمہ لگائی تاکہ وہ حج کے موقع پر مکہ اسے لوگوں کے سامنے اعلان کیا جائے؛ لیکن بعد میں اس ذمہ داری کو ابوبکر سے واپس لے کر حضرت علیؑ کے ذمہ لگادی اور حضرت علیؑ نے اس حکم کو حج کے موقع پر لوگوں تک پہنچائی۔[96] یہ واقعہ اہل سنت منابع میں نقل ہوا ہے۔[97]
خاتمبخشی: خاتم بخشی اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جس میں امام علیؑ نے نماز میں رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی کسی فقیر کو بخش دیئے۔ یہ واقعہ شیعہ اور اہل سنت کتب حدیثی میں نقل ہوا ہے۔[98]
ردّ الشمس: اس واقعہ میں پیغمبر اکرمؐ کی دعا سے سورج غروب ہونے کے بعد دوبارہ لوٹ آیا تاکہ حضرت علیؑ نماز عصر ادا کر سکے۔[99] اسی طرح شیخ مفید کے مطابق حضرت علیؑ کے زمانے میں ایک جنگ کے دوران نماز عصر قضا ہو گئی جس پر حضرت علی کی دعا سے سورج دوبارہ پلٹ آیا۔[100]
حضرت علی کے فضائل کو نشر ہونے سے روکنا
تاریخی شواہد کے مطابق بنیامیہ کے دور میں معاویہ کے حکم سے حضرت علیؑ کے فضائل کو نشر کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی: تیسری صدی ہجری کے مورخ على بن محمد مدائنى کے مطابق معاويہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا تھا کہ جو شخص علی و اولاد علی کی فضیلت میں کوئی چیز نقل کرے اس کی جان و مال کی کوئی حرمت نہیں ہوگی۔[101] اسی طرح نقل کیا ہے کہ علی و اولاد علی کو نیکی کے ساتھ یاد کرنا اور ان کے نام پر بچوں کا نام رکھنا بھی منع تھا۔[102] معاویہ امام علی کی شأن میں گستاخی کرتا تھا اور کہتا تھا: میں اس کام سے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا یہاں تک کہ انہیں نیکی کے ساتھ یاد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔[103] معاویہ کے حکم سے ممبروں سے حضرت علیؑ کو سَبّ و شتم کا آغاز ہوا[104] جو تقریبا 60 سال تک یعنی عمر بن عبدالعزیز کے دور حکومت تک جاری رہا۔[105]
محمدجواد مغنیہ کے مطابق بنی امیہ والے ہر اس شخص کو اذیتیں پہنچایا کرتے تھے۔ انہوں نے امام علیؑ کے شاگردوں اور خاص پیروکاروں جیسے میثم تمار، عَمرو بن حَمِق خُزاعی، رشید ہجری، حُجر بن عُدَى اور كمیل بن زیاد کو مار ڈالا تاکہ لوگ ان کے ذریعے حضرت علیؑ کے فضائل تک نہ پہنچ سکے۔[106] اسی طرح اہل سنت عالم دین شيخ محمد ابوزہرہ کے مطابق حضرت علیؑ کے فضائل کے مخفی رہنے میں بنی امیہ کی حكومت کا بڑا کردار ہے اسی وجہ سے آپ کی فضیلت کے باب میں اہل سنت منابع میں بہت ہی کم احادیث نقل ہوئی ہیں۔[107]
سید علی شہرستانی اپنی کتاب "منعُ تدوینِ الحدیث" میں لکھتے ہیں: اکثر شیعہ مصنفین اس بات کے معتقد ہیں کہ احادیث کو لکھنے اور محفوظ کرنے سے ممانعت کی ایک وجہ امام علیؑ کے فضائل کو نشر ہونے سے روکنا تھا؛[108] کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی احادیث میں اہل بیت کی فضیلت اور خلافت کے لئے دوسروں کی نسبت اہل بیت کی برتری کے بارے میں کافی شواہد بیان ہوئے تھے اور یہ چیز بنیامیہ کی حکومت کے مفاد میں نہیں تھی۔[109]
حضرت علی کے فضائل کو دوسروں کی طرف نسبت دینا
چنانچہ ابنابیالحدید نے تیسری صدی ہجری کے معتزلی متکلم ابوجعفر اِسکافی سے نقل کیا ہے کہ معاویہ نے صحابہ اور تابعین کی ایک گروہ کو اس بات پر مأمور کیا تھا کہ وہ امام علی کی مذمت میں احادیث جعل کریں۔[110] اس نے اپنے کارندوں کو حکم دیا تھا کہ عثمان بن عفان کے چاہنے والوں کی شناسائی کریں اور انہیں اپنے نزدیک کرنے کی کوشش کریں اور یہ لوگ جو کچھ عثمان کی فضیلت میں نقل کرے انہیں ضبط تحریر میں لائیں۔[111] مدائنى کے مطابق لوگ مال و دولت کی لالچ میں عثمان کی تعریف میں حديثیں جعل کرتے تھے یوں عثمان کے فضائل کثیر تعداد میں نقل ہونے لگے؛[112] اسی طرح معاویہ نے ایک اور خط میں اپنے کارندوں کو لکھا کہ لوگوں کو دعوت دیں کہ وہ صحابہ اور خلفائے ثلاثہ کی تعریف میں احادیث نقل کریں یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب کی فضيلت میں کوئی حدیث باقی نہ رہے، یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب کی فضیلت میں نقل ہونے والی تمام احادیث کو یا خلفائے ثلاثہ کے حق میں بیان کریں یا ان کے فضائل کے برخلاف ان کا ضد علی ابن ابی طالب کے لئے بیان کریں۔[113]
امام علی کے فضائل سے انکار
ابنتیمیہ (661-728ھ) اہلبیتؑ کی فضیلت میں نقل ہونے والی احادیث کو جعلی سمجھتے تھے۔[114] اسی طرح ان کے شاگرد اسماعیل بن عمر معروف بہ ابنکثیر دمشقی (701-774ھ) کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب کی شأن میں کوئی آیت خصوصی طور پر نازل نہیں ہوئی ہے اور جو آیات ذکر کی جاتی ہیں وہ درحقیقت علی ابن ابی طالب اور دوسرے خلفاء کی شأن میں نازل ہوئی ہیں۔[115] ان کے خیال میں اس حوالے سے ابنعباس اور دوسرے صحابہ سے نقل ہونے والی احادیث صحیح نہیں ہیں۔[116] اسی طرح وہ امام علیؑ کی شان میں نقل ہونے والی اکثر احادیث کے سند کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔[117]
کتابیات
امام علیؑ کے فضائل اہل سنت کی مشہور کتابوں جیسے صحاح ستہ میں مناقب و فضائل علی بن ابیطالب کے عنوان سے آئے ہیں۔[118] اسی طرح فضائل اہل بیت میں لکھی گئی کتابوں میں ایک حصہ امام علیؑ کے مناقب اور فضائل سے متخص ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت علماء نے امام علیؑ کے فضائل و مناقب میں مستقل کتابیں بھی تحریر کی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
کتب اہل سنت
فضائل امیرالمؤمنین، تحریر احمد بن حنبل شیبانی (متوفی 241ھ)۔ اس کتاب میں 369 احادیث حضرت علی کے فضائل و مناقب میں نقل ہوئی ہیں۔[119] ابنحنبل نے اس کتاب میں غدیر کے دن خلیفہ دوم کی طرف سے حضرت علیؑ کو مبارک باد دینے کا واقعہ بھی نقل کیا ہے۔[120]
خصائص امیرالمؤمنین (کتاب)، تحریر احمد بن شعیب نسائی (متوفی 303ھ) جو محدث اور صحاح ستہ اہل سنت میں سے السنن کے مؤلف بھی ہیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے جس میں حضرت علیؑ کے اسلام لانے کا واقعہ، پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک آپ کا مقام، رسول خداؐ کے ساتھ آپ کی رشتہ داری اور آپ کی زوجہ اور اولاد کے مقام و منزلت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔
مناقب الامام علی بن ابیطالب، تحریر اِبْن مَغازِلی (متوفی 483ھ)۔ یہ کتاب عربی میں لکھی گئی ہے جس میں حضرت کے بعض فضائل جیسے مولود کعبہ ہونا، اسلام لانے میں آپ کی سبقت، پیغمبر اکرمؐ کے دوش مبارک پر سوار ہونا اور آپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات اور احادیث کا ذکر کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ مناقب علی بن ابیطالب، تحریر احمد بن موسی بن مَردَوَیہ (متوفی 410ھ)، اَلْمعیار و المُوازنۃ فی فضائل الإمام أمیرالمؤمنین علی بن أبیطالبؑ، تألیف محمد بن عبداللہ اِسکافی (متوفی 240ھ)، الجوہرۃ فی نسب الامام علی و آلہ تحریر محمد بن ابیبکر تلمسانی (ساتویں صدی ہجری)، جواہر المطالب فی مناقب الامام علی بن ابیطالب، تحریر شمسالدین باعونی (متوفی 871ھ)، کفایۃ الطالب فی مناقب علی بن ابیطالب، تحریر محمد بن یوسف گنجی (متوفای 658ھ، مَناقِبُ الامام أمیرُالمُؤمنین ؑ تألیف موفق بن احمد خوارزمی (متوفی 568ھ) اور مناقب مرتضوی، تحریر میر محمدصالح ترمذی (متوفی 1060ھ) وغیره اہل سنت کی دیگر کتابیں ہیں جو امام علیؑ کی فضیلت کے باب میں لکھی گئی ہیں۔
کتب شیعہ
المراتب فی فضائل امیرالمؤمنین۔ یہ کتاب چوتھی صدی ہجری میں ابوالقاسم بُستی کی تحریر ہے۔ اس کتاب میں حضرت علیؑ کی فضیلت میں 450 احادیث ذکر کی گئی ہے۔
تفضیل امیرالمؤمنین، تحریر شیخ مفید (متوفی 413ھ)۔ شیخ مفید اس کتاب میں شیعہ سنی احادیث سے استناد کرتی ہوئے پیغمبر اسلام کے علاوہ تمام انبیاء پر حضرت علیؑ کی فضیلت کو ثابت کرتے ہیں۔ یہ کتاب فارسی میں ترجمہ ہوا ہے۔
الرّسالَۃُ العَلَویۃ فی فَضلِ أمیرالمؤمنینؑ عَلی سائرِ البَرّیۃ سِوی سیدنا رَسولُ اللہ ؐ۔ اس کتاب کو ابوالفتح کراجکی (متوفی 449ھ) نے عربی زبان میں تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں قرآنی آیات کی رو سے حضرت علی کے افضل ہونے اور آپ کی خصوصیات اور ان سے متعلق شبہات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔
الیَقین بِاختِصاصِ مولانا عَلیّ علیہالسلام بِإمرَۃِ المُؤمِنین۔ یہ کتاب سید بن طاووس (متوفی 664ھ) کی تحریر کردہ ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں اہل سنت منابع سے 220 احادیث سے استناد کرتے ہوئے لقب "امیرالمؤمنین" کو حضرت علیؑ کے ساتھ مختص قرار دیا ہے جسے رسول اکرمؐ نے آپ کو دیا تھا۔
اس کے علاوہ عُمْدَۃُ عُیونِ صِحاحِ الأخْبار فی مَناقبِ إمامِ الأبرار مشہور بہ العُمدَۃ، تألیف ابن بطریق (متوفی 600ھ)، مائۃُ مَنْقَبَۃ مِنْ مَناقِب امیرالمؤمنین وَ الأئمّۃ مِنْ وُلْدہؑ مِن طَریقِ العامّۃ تحریر ابن شاذان، طرف من الانباء اور المناقب، تحریر سید بن طاووس، الروضۃ فی فضائل امیرالمؤمنین تحریر شاذان بن جبرئیل قمی، کشف الیقین فی فضائل امیرالمؤمنین تحریر علامہ حلی و قضاء امیرالمؤمنین تحریر محمدتقی شوشتری وغیرہ دوسری کتابیں ہیں جنہیں شیعہ علماء نے حضرت علیؑ کی فضیلت کے باب میں تحریر کی ہیں۔
حوالہ جات
اصغرپور، «درآمدی بر مناقبنگاری اہلبیت»، ص۲۶۷۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: بیاضی، الصراط المستقیم، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۱۵۱تا۲۹۸۔
ابنشاذان، مائۃ منقبۃ، ۱۴۰۷ق، ص۱۷۷۔
حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۱۶۔
ابنشاذان، مائۃ منقبۃ، ۱۴۰۷ق، ص۱۷۷۔
ابنمنظور، مختصر تاریخ دمشق، ۱۴۰۲ق، ج۱۸، ص۱۱۔
شبلنجی، نورالابصار، الشریف الرضی، ج۱، ص۱۵۹۔
گنجی شافعی، کفایۃ الطالب، ۱۴۰۴ق، ص۲۳۱۔
سورہ مائدہ، آيہ۵۵۔
طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۲۵؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۹۳؛ حاکم حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۰۹تا۲۳۹۔
سورہ بقرہ، آیہ ۲۰۷۔
ابنابیالحدید، شرح نہجالبلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۲۶۲۔
طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۱۰۰۔
طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۴۶۶-۴۶۷۔
سورہ مائدہ، آیہ۶۷۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۳۳۲؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۹۸؛ آلوسی، روحالمعانی، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۱۹۴۔
کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۰؛ طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۵۷۔
سورہ مائدہ، آیہ۳۔
مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۴، ص۲۶۴و۲۶۵۔
امینی، الغدیر، ۱۳۶۸ش، ج۲، ص۱۱۵۔
سورہ توبہ، آیہ۱۱۹۔
کلینی، الکافی، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۲۰۸؛ آمدی، غایۃ المرام، ۱۳۹۱ق، ج۳، ص۵۲۔
حلی، کشف المراد، ۱۴۱۹ق، ص۵۰۳۔
سورہ بینہ، آیہ۷۔
حاکم الحسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۴۵۹؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۳۷۹۔
نمونہ کےلئے رجوع کریں: حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ۳۴۱-۳۵۲؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۲۴۴؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۱؛ حویزی، تفسیر نورالثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۳۷۰۔
طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۳۳۲۔
سورہ بقرہ، ص۲۷۴۔
ابنعساكر، تاريخ مدينۃ دمشق، ج۳۸، ص۲۰۶۔
سورہ مجادلہ، آيہ۱۲۔
طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۹، ص۳۸۰۔
سورہ مریم، آیہ۹۶۔
قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۵۶۔
نمونہ کےلئے رجوع کریں: سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۳۹؛ طبرسی، مجمعالبیان، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۷۶۴؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۳۰۔
ابن حکم، تفسیر الحبری، ۱۴۰۸ق، ص۲۹۷-۳۱۱؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۵۶۰؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۶، ص۳۱۱۔
سورہ نساء، آيہ۵۹۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۳۸۹؛ فخر رازی، مفاتیحالغیب، ۱۴۲۰ق، ج۱۰، ص۱۱۳۔
قندوزی، ینابیع المودہ، ۱۴۱۶ق، ص۴۹۴؛ عیاشی، تفسیر عیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲۔
سورہ شوری، آیہ۲۳۔
مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۳، ص۲۳۲۔
سورہ انسان، آيہ۸و۹۔
علامہ طباطبایی، ۱۴۱۷ق، ج۲۰، ص۱۳۲۔
زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۶۷۰۔
سورہ نحل، آیہ۴۳؛ سورہ انبیاء، آيہ۷۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۴۳۲۔
ابن حنبل، فضائل امیر المومنین، ۱۴۳۳ق، ص۱۹۷؛ امینی، الغدیر، ج۱، ص۱۴و۱۵۔
بخاری، صحیحالبخاری، ۱۴۲۲ق، ج۵، ص۱۹، باب مناقب جعفر بن ابیطالب، حدیث ۳۷۰۶؛ مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۱۸۷۰و۱۸۷۱، حدیث ۲۴۰۴؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۱۰۶و۱۰۷، حدیث ۸۰؛ ابنحنبل، فضائل امیرالمومنین علی بن ابیطالب، ۱۴۳۳ق، ص۱۵۶۔
قمی، تفسیرالقمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۶۸؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۳۷، حدیث ۴۶۳۷۔
امینی، الغدیر، ۱۳۷۰ق، ج۶، ص۷۸و۷۹۔
حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۵۴۳؛ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۴، ص۱۸۶تا۱۸۹؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۹۷۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: شیخ مفید، الفصول المختارہ، ۱۴۱۳ق، ص۹۶۔
رجوع کریں: ابنعساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۴۲، ص۳۹۲؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۸، ص۱۵۴تا۳۳۹۔
نمونہ کےلئے رجوع کریں: استرآبادی، البراہین القاطعہ، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۲۴۴۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۴۳؛ ابنحنبل، مسند الامام احمد، ۱۴۲۱ق، ج۵، ص۱۸۰؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۲۔
صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۲۔
رحیمی اصفہانی، ولایت و رہبری، ۱۳۷۴ش، ج۳، ص۱۱۹تا۱۲۱۔
نسائی، خصائص امیر المومنین، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۲۹، ح۱۰۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: نسائی، خصائص امیر المومنین، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۲۹، ح۱۰؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۸، ص۳۵۵۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: بخاری، صحیحالبخاری، ۱۴۲۲ق، ج۵، ص۱۸، حدیث ۳۷۰۱و۳۷۰۲؛ مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۱۸۷۲، حدیث ۲۴۰۶۔
کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۴۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: نسائی، السنن الکبری، ۱۴۲۱ق، ج۷، ص۳۱۰، حدیث ۸۰۹۲؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۴؛ مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۱۸۷۳، حدیث ۲۴۰۸؛ ابنحنبل، فضائل امیر المومنین علی بن ابیطالب، ۱۴۳۳ق، ص۱۸۰۔
طوسی، الأمالی، ۱۴۱۴ق، ص۳۶۸؛ کلینی،الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷۔
ابنحنبل، فضائل امیرالمومنین علی بن ابیطالب، ۱۴۳۳ق، ص۱۸۴؛مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۱۸۸۳، حدیث ۲۴۲۴؛ طبری، المسترشد، ۱۴۱۵ق، ص۵۹۸۔
ابنحنبل، فضائل امیرالمومنین علی بن ابیطالب، ۱۴۳۳ق، ص۱۸۴؛مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۱۸۸۳، حدیث ۲۴۲۴؛ طبری، المسترشد، ۱۴۱۵ق، ص۵۹۸۔
حاکم نیشابوری، مستدرکالصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۷۳، حدیث ۳۳۱۲۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: حاکم نیشابوری، مستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۷۳، حدیث ۳۳۱۲؛ نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۴۴۔
حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۶۳، حدیث ۲۹۴۹؛ حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۳۷۶و۳۷۷۔
ابنبطریق، خصائص الوحی المبین فی مناقب امیر المومنین، ۱۴۱۷ق، ص۲۴۶۔
کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۲۷۔
خطيب بغدادى، تاريخ بغداد، ۱۴۲۲ق، ج۱۶، ص۴۷۰؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۸۹۔
خوارزمی، المناقب، ص۶۷؛ ابنشہرآشوب، مناقب آلابیطالب، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۲۶۳۔
کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۱۱۰۔
طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۵۱۴۔
شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۲۷و۸۶؛ صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۴تا۴۱۸۔
شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۲۷و۸۶؛ صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۴تا۴۱۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۹، ص۱۹۳تا۲۱۱۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: ابنمغازلی، مناقب الامام علی بن ابیطالبؑ، ۱۴۲۴ق، ص۱۰۷؛ خوارزمی، مناقب، ۱۴۱۱ق، ص۲۹۵؛ حَمّوئی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسہ محمودی، ج۱، ص۳۲۵و۳۲۶۔
حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۱۴۔
ابنحنبل، فضائل امیرالمومنین علی بن ابیطالب، ۱۴۳۳ق، ص۱۹۴۔
ابنحنبل، فضائل امیر المومنین علی بن ابیطالب، ۱۴۳۳ق، ص۱۷۴۔
ابنحنبل، فضائل امیرالمومنین علی بن ابیطالب، ۱۴۳۳ق، ص۱۷۲۔
احمد حنبل، مسند الامام احمد، ۱۴۲۱ق، ج۵، ص۱۷۹۔
ابنعساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۴۲، ص۳۵۶۔
حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۵۲، ح۴۶۸۱۔
ابنمردویہ، مناقب علی بن ابیطالب، ۱۴۲۴ق، ص۱۶۲۔
احمد حنبل، مسند الامام احمد، ۱۴۲۱ق، ج۳، ص۴۸۰۔
ابنحنبل، فضائل امیر المومنین علی بن ابیطالب، ۱۴۳۳ق، ص۱۸۳۔
طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۵۵۲۔
فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ۱۳۷۵ش، ص۱۴۷۔
فتال نیشابوری، روضۃالواعظین، ۱۳۷۵ش، ص۱۴۶۔
امینی، الغدیر، ۱۳۹۷ق، ج۶، ص۲۱تا۲۳۔
شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۴۸۔
تقدمی معصومی، نور الأمیر فی تثبیت خطبۃ الغدیر، ۱۳۷۹ش، ص۹۷۔
مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۹، ص۳۵؛ ابنحنبل، فضائل امیرالمومنین، ۱۴۳۳ق، ص۱۷۷۔
ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱ق، ج۳، ص۱۰۹۷و۱۰۹۸۔
النسائی، السنن الکبری، ج۵، ص۱۰۷؛ ابنحنبل، فضائل امیرالمومنین، ۱۴۳۳ق، ص۱۸۶و۱۸۷۔
مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۷، ص۲۷۵۔
ابنحنبل، مسند الامام احمد، ۱۴۲۱ق، ج۵، ص۱۷۹؛ نسایی، خصائص، ۱۴۰۶ق، ص۹۳۔
طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۲۵؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۹۳؛ حاکم حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۰۹تا۲۳۹۔
شیخ مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۴۶۔
مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۴۷۔
ابنابیالحدید، شرح نہجالبلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۱، ص۴۴۔
رجوع کریں: محمدی ریشہری، دانشنامہ امیر المؤمنین، ۱۴۲۸ق، ص۴۷۵تا۴۸۳۔
ابنابىالحديد، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۵۷۔
ابن ابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۱، ص۴۴۔
ابنخلدون، تاریخ ابنخلدون، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۹۴۔
مغنيہ، الحسين و بطلۃ كربلاء، ۱۴۲۶ق، ص۱۸۷۔
ابوزہرہ، الامام الصادق، مطبعۃ محمدعلی مخیم، ص۱۶۲۔
شہرستانی، منع تدوین الحدیث، ۱۴۱۸ق، ص۵۷۔
اصغرپور، «درآمدی بر مناقبنگاری اہل بیت»، ص۲۷۰۔
ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۶۳۔
ابنابیالحدید، شرح نہجالبلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۱، ص۴۴۔
ابنابیالحدید، شرح نہجالبلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۱، ص۴۴۔
ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۱، ص۴۵۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، ۱۴۰۶ق، ج۸، ص۵۰-۸۶ و۱۲۲-۱۲۶ و ۱۶۴-۱۶۸.
ابنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۵۷۔
ابنکثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۵۷-۳۵۸۔
نگاہ کنید بہ ابنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۵۷و۳۵۸۔
نمونہ کے لئے رجوع کریں: بخاری، صحیحالبخاری، ۱۴۲۲ق، ج۵، ص۱۸؛ مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۱۸۷۰و۱۸۷۱، حدیث ۲۴۰۴۔
مردی، «یادی از محقق طباطبائی بہ بہانہ چاپ فضائل امیرالمؤمنین علیہالسلام۔»
ابنحنبل، فضائل امیر المومنین، 1433ق، ص197۔
مآخذ
ابن ابیالحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، تصحیح محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ھ۔
ابن بطریق، یحیی بن حسن، خصائص الوحی المبین فی مناقب أمیرالمؤمنین، قم، دارالقرآن الکریم، ۱۴۱۷ھ۔
ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۰۶ھ.
ابن حنبل، احمد بن محمد، مسند الامام احمد بن حنبل، تحقیق شعیب ارنؤوط و عادل مرشد و...، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۱ء۔
ابن حنبل، احمد، فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب، تحقیق سید عبدالعزیز طباطبایی، قم، دار التفسیر، ۱۴۳۳ھ/۱۳۹۰ش۔
ابن شاذان، محمد بن احمد، مائۃ منقبۃ من مناقب امیر المومنین و الائمہ، قم، مدرسۃ الامام المہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف، ۱۴۰۷ھ۔
ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیطالب، قم، علامہ، ۱۳۷۹ھ۔
ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، تحقیق علی محمد بجاوی، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ء۔
ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق: علی شیری، دارالفکر، بیروت، ۱۴۱۵ھ۔
آپ کا تبصرہ